حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،انٹرنیشل نور مائکروفلم سینٹر دہلی کے اہم کاموں میں سے ایک کام کتاب"تاریخ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ" کی اشاعت ہے جو تین جلدوں پر مشتمل ہے اور یہ کتاب بہترین سر ورق کے ساتھ مذکورہ مرکز میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے؛ اس کتاب میں بالتفصیل مدرسہ سلطان المدارس کی تاریخ کو تحریر کیا گیا ہے اور حق یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف الحاج مولانا شیخ ابن حسن املوی کربلائی صاحب قبلہ نے اس کام میں رات دن زحمت کرکے مدرسہ کی بابت اپنے انتہائی خلوص کا ثبوت دیا ہے۔
مدرسہ سلطانیہ کے بانی و مؤسس،ثریا جاہ امجد علی شاہ اورامین الدولہ امداد حسین خان:
حضرت ثریا جاہ امجد علی شاہ کی ولادت اوائل ماہ مبارک۱۲۱۵ھ میں حضرت محمد علی شاہ کی خاص محل جہاں آرابیگم عرف کھیتو بیگم مخاطب بہ نواب ملکہ بنت نواب امام الدین خاں نبیرہ وزیر الممالک نواب اعتماد الدولہ قمر الدین خاں وزیر حضرت محمد شاہ شہنشاہ دہلی کے بطن سے نواب سعادت علی خاں کے عہد فرما ں روائی میں ہوئی ملکہ آفاق کی پھوپھی شمس النساء بیگم نواب آصف الدولہ بہادر مرحوم سے منسوب تھیں ۔ آپ کی شادی خانہ آبادی اپنے حقیقی ماموں نواب حسین الدین خاں رسالدار اودھ کی صاحب زادی نواب سعادت علی خان بہادر کی نواسی "نواب تاج آرا بیگم صاحبہ" سے ہوئی جنہیں سسرال کی طرف سے خاتون معظمہ، باد شاہ بہو، نواب ملکہ اورکشور صاحبہ جیسے خطابوں سے نوازا گیا۔ نواب ملکہ کشور اپنے گونا گوں اوصاف، زبر دست شخصیت، استرداد سلطنت کی جان لیو امساعی کے باعث تاریخی اہمیت کی مالک ہیں۔ ان کے تذکرہ کے لئے بجائے خود ایک مضمون کی ضرور ت ہے ، یہاں اس کی گنجائش نہیں۔
ولیعہد ہونے کے بعدامجدعلی شاہ کے لئےنجم الدولہ، ابوالمظفر ،ثریا جاہ، سپہر شکوہ، صاحب عالم، ولیعہد، مرزا محمد، امجد علی بہادر جیسے خطاب اور۴۵ ہزار ماہانہ جیب خرچ مقرر ہوا۔کمال الدین حیدر کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ شرف الدولہ کو عہدہ وزارت فی الحقیقت نہ تھا مگر پیش دستی مرزا ولی عہد بہادر یعنی ڈپٹی مقرر فرمایا،دس ہزار ماہواری مقرر ہوئی۔ (ج۱ ،ص:۳۶۶)
مرحوم محمد علی شاہ کا دورِ حکومت کم و بیش ۵ سال کے ا ندر تمام ہوا۔اتنی ہی مدت کی ولی عہدی بسرکرکے ا مجد علی شاہ تینتالیس برس، چھ مہینہ، دس دن کی عمر میں ماہ ربیع الثانی۱۲۵۸ ھ بمطابق ماہ جولائی ۱۸۴۲ء میں تخت نشین ہوئے ۔
نظم و نسق ایک بہت اہم اور دور رس تبدیلی سے روشناس کراتا ہے ۔ یہ تبدیلی محکمہ شرعیہ کا قیام تھی ۔ اسکی تفصیل مولوی سید باقر شمس لکھنوی کی زبانی سنیے: محمد علی شاہ کے بعد ان کے بیٹے امجد علی شاہ سر یر سلطنت پر جلوہ افروز ہوئے یہ ایک متقی و پر ہیز گار شخص تھے ۔ مجتہد العصر سے اتنی عقیدت تھی کہ نام نہ لیتے تھے بلکہ ہمیشہ قبلہ و کعبہ کہتے تھے اور شاہی حکم تھا کہ کوئی ان کا نام نہ لے، بوقت ضرورت انہیں اپنے پاس نہیں بلاتے تھے بلکہ ان سے ملاقات کی خاطرخود ان کے دولت کدہ پرجایا کرتے تھے ۔ ان کو متعدد القاب سے نوازا تھا مثلاً: ’’ مجمع علوم دین، مرجع سادات و مومنین ،حافظ احکام الہ، مو رد اعتقاد ات شاہ، سلطان العلما ء ،مجتہد العصر مولانا سید محمد صاحب‘‘۔ بادشاہ نے سلطان العلما ءسے حکومت میں اصلاح کی خواہش کی ،سلطان العلماء نے اس شرط پر محکمہ شرعیہ کے قیام کی تجویز پیش کی کہ اس پر حکومت کی با لا دستی نہ ہو کیوں کہ شریعت، حکومت کے ماتحت نہیں ہو سکتی ۔ باد شاہ نے اظہار مسرت کے ساتھ منظوری کی سند دے دی اور محکمہ شرعیہ قائم کردیا گیا ۔
کمال الدین حیدر سلطان الاخبار کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں: ان کے وقت میں انتظام کا یہ حال تھا کہ صبح سے دوپہر تک کاغذات مالی و ملکی اور دا د خواہوں کی عرضیاں سنتے اور خود بھی ملا حظہ کر تے ۔ سہ پہر کے وقت اور رات کو پر چہائے اخبار اور مستغیثو ن کی عرضیاں جو الا پر شاد سے سنتے اور ان پر حکم لکھوا تے تھے۔(جلد ۵۔ص۳۶) تاریخ اودھ کے سلسلے میں بے توجہی برتی گئی اور فرما نروائوں کی عیب جوئی اور نقص شماری کے اہتمام کے سو ا کسی اور پہلومیں دیانت داری سے کام نہیں لیا گیا ۔
حضرت محمد علی شاہ کے وقت وفات شرف الدولہ محمد ابراہیم خاں وزارت کا کام دیکھتے تھے لیکن حضرت امجد علی شاہ نے تخت نشینی کے بعد شاہ مرحوم کے فاتحہ سوم کے دن امداد حسین خان جو کئی برس پہلے شاہزادوں کی تعلیم کے لئے نو کر ہوئے تھے ۔ انہیں خطاب امین الدولہ امد اد حسین خاں بہادر ذوالفقار جنگ سے نواز نیز خلعت ،ہاتھی ، پالکی اورجھالر دار شمشیرسے سر فراز فرمایا ۔
حضرت ثریا جاہ محمد امجد علیشاہ جنت مکاں کی دینداری و پاسداری شرع کا ذکر سب ہی کرتے ہیں چاہے ازراہ تعریف یا ازراہ تعریض مگر اعتراف کے سوا چارہ کسی کونہیں ۔
پانچ سال بلکہ اس سے بھی کم مدت ہوتی ہی کیا ہے پھر ایسے فرمانروا کے لئے جو انگریزوں کے کلی انتداب میں ہو پھر بھی امجد علی شاہ کے کار نامے ہمہ جہتی و دیر پااور تاریخی اہمیت کے حامل ہیں ان میں سے ایک زبر دست کام راج گھاٹ ( لکھنؤ)کے قریب گومتی پر لوہے کا پُل بنانا ہے ۔ یہ پُل لندن کے ایک پُل کی طرزپر بنایا گیا ہے ۔ اس کی تیاری نواب سعادت علی خاں بہادر کی فرمائش سے ہوئی تھی اور غازی الدین حیدر شاہ کے عہد میں لکھنؤ پہنچ گیا تھا مگر حضرت جنت مکاں کے عہد مبارک میں نصب ہوا ۔تنصیب پر تین لاکھ کی لاگت آئی۔
دوسرا کام جواس عہد فلاح مہد کے خاص کاموں میں شمار کیا جاتا ہے وہ لکھنؤسے کانپور تک کی سڑک کی تعمیر ہے جو گنگا کے پل تک بنائی اس پر بھی تین لاکھ روپیے کی لاگت آئی ۔ اس دور میں مسافر خانوں کی ترمیم اور تیاری پر بھی کافی توجہ دی گئی ۔ رہزنوں اور بدمعاشوں سے مسافروں کی حفاظت کیلئے پہرہ چوکی کا انتظام چوکسی کے ساتھ کیا گیا ۔ سر حدی پولیس کا قیام بھی اسی دور کی خصوصیت ہے ۔
عہد امجدی کا سب سے بڑا علمی کار نامہ مدرسہ سلطانیہ کا قیام ہے جو آج ایک خیر جاری کی صورت میں ان کے بقائے نام کا باعث بھی ہے اور ترویح روح کا ذریعہ بھی ۔
اس مجسمہ خیر و خوبی نے اس عالم فانی میں اڑتا لیس سا ل کی زندگی اور کم و بیش ۵سال کا دو ر فرما نر وائی گزار کر ۲۶/صفر۱۲۶۳ ھ بمطابق۱۳/فروری۱۸۴۷ء میں دفات پائی۔
اصلی منبع: "تاریخ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ، ج1،تالیف: مولانا شیخ ابن حسن املوی کربلائی؛ ناشر: انٹرنیشنل نورمائکرو فلم سینٹر ، ایران کلچر ہاؤس،دہلی( ہند)"۔
جاری ہے۔۔۔